اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورت کے مطابق، اسرائیلی فوج اور سیاسی قیادت کے درمیان اختلافات نئے مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق اعلیٰ سکیورٹی قیادت میں کشیدگی اس وقت شدت اختیار کر گئی جب چیف آف اسٹاف جنرل ایال زامیر نے بن گوریون کی یادگاری تقریب میں ایسی سخت باتیں کہیں جنہیں وزیر جنگ یسرائیل کاتس اور سیاسی قیادت پر براہِ راست تنقید سمجھا گیا۔
جنرل زامیر نے کہا کہ قیادت کا اصل جوہر تعمیر نو ہے اور اسرائیل کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو حقیقت کو دیکھے، شکست کو تسلیم کرے اور نئے راستے کا تعین کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ ان کے اس بیان کے بعد اسرائیلی سکیورٹی اداروں کے اندر اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔
وزیر جنگ کے دفتر نے زامیر کے بیان پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف نے سیاسی قیادت کی اتھارٹی کو چیلنج کیا ہے اور وہ اپنی حدود سے آگے بڑھ گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ زامیر نے اندرونی تحقیقات کی کچھ معلومات وزیر جنگ سے پوشیدہ رکھی ہیں۔ تاہم ان کی برطرفی کا امکان مسترد کیا گیا ہے۔
کشیدگی کے باوجود کاتس اور زامیر دونوں نے چند گھنٹے بعد ایک اہم سکیورٹی اجلاس میں شرکت کی جس میں وزیراعظم بنیامین نتن یاہو، شاباک کے سربراہ اور موساد کے ڈائریکٹر بھی موجود تھے۔
رپورٹ کے مطابق یہ تنازع اس وقت بڑھا جب وزیر جنگ نے “تحقیق التحقیقات” کے نام سے تیار کی گئی سات ماہ پر مشتمل رپورٹ کا ازسرِنو جائزہ لینے کا حکم دیا۔ کاتس اس بات پر ناراض تھے کہ آرمی چیف نے انہیں پیشگی طور پر اپنی ذاتی ارزیابی سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ زامیر نے اس پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بارہ جنرلز کی تیار کردہ رپورٹ پر سوال اٹھانا حیران کن ہے۔
جنرل زامیر نے سیاسی قیادت پر ہر قسم کی آزاد تحقیقات سے گریز کا الزام بھی لگایا اور کہا کہ اگر مزید حقائق درکار ہیں تو ایک بیرونی اور آزاد کمیٹی تشکیل دی جائے جو سات اکتوبر سے پہلے سیاسی اور عسکری سطح پر رابطوں کا جائزہ لے۔
سات اکتوبر 2023 کو حماس نے طوفان الاقصیٰ نامی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیلی فوجی اڈوں اور قریبی بستیوں پر حملہ کیا تھا اور متعدد فوجیوں اور آبادکاروں کو قیدی بنایا تھا۔ اسرائیلی حکام تسلیم کرتے ہیں کہ یہ واقعہ اسرائیل کے لیے ایک بڑی عسکری اور انٹیلی جنس ناکامی تھا جس نے تل ابیب کی عالمی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جاری جنگ اور داخلی سیاسی بحران کے درمیان اس نوعیت کے اختلافات اسرائیلی قیادت کی کمزوری اور بڑھتی ہوئی بے اعتمادی کو ظاہر کرتے ہیں اور یہ تنازع مستقبل میں مزید گہرائی اختیار کر سکتا ہے۔
آپ کا تبصرہ